شب برأت کی حقیقت

 شب برأت کی حقیقت


شب برأت کا معنیٰ


""شب"" فارسی زبان کا لفظ ھے جس کے معنی ھیں "رات"


اور لفظ ""برأت"" عربی، اردو اور فارسی میں الگ الگ معنی دے گا.


عربی میں برأت کے معنی بیزاری، نفرت اور لا تعلقی کے ھیں.


(سورة البقرہ > 167 سورة التوبه > 1)


اردو میں برات سے مراد وہ جلوس جو دولہا اپنے ساتھ شادی کیلئے لے کر جاتا ھے


اور فارسی میں برأت (غیر مہموز) یعنی حصہ، نقد اور تقدیر وغیرہ ھے.


لہذا شب برأت کے خالص عربی نہ ھونے سے ھی اس کے بناوٹی ھونے کا ثبوت ملتا ھے.


قرآن اور حدیث عربی میں نازل ھوا تھا نہ کہ فارسی میں.


اگر دین میں اس کا کوئی ثبوت ھوتا تو اس کا نام عربی میں "لیلة البراة" ھوتا.


"ایک غلط فہمی"


بعض لوگ سورة الدخان کی آیت سے اس رات کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ھیں.


القــرآن الکـریـم

حم. قسم ھے کتاب (قرآن) مبین کی، بے شک ھم نے اس (قرآن) کو ایک بہت برکت والی رات میں اتارا ھے شک ھم ڈرانے والے ھیں.

اسی (رات) میں ھر محکم کام کا فیصلہ کیا جاتا ھے.

[سورة الدخان] آیت: 1-4


اب اگر غور کیا جائے تو بات واضح ھے کہ لیلة مبارکہ, لیلة القدر ھے جس میں قرآن نازل کیا گیا،

جو رمضان المبارک کے مہینہ میں آتی ھے.


القــرآن الکـریـم

شھر رمضان الذي انزل فیه القرآن

ترجمہ:

رمضان وہ (مبارکـــ) مہینہ ھے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا.

[سورة البقرہ] آیت: 185


انآ انزلنه في لیلة القدر

ترجمہ:

بےشک ھم نے اس ( قرآن ) کو لیلة القدر میں اتارا ھے۔

[سورة القدر]


نہ کہ پندرھویں شعبان کو.


اس رات کی عبادات


اس رات کی خاص عبادت اور نوافل کا کوئی قرآن و صحیح احادیث میں ذکر نہیں ھے، جو کچھ روایات بیان کی جاتی ھیں تو وہ جھوٹی، من گھڑت اور ضعیف ھیں۔


کیا شعبان کی پندرھویں رات کو لوگوں کی تقدیریں اور موت و حیات وغیره کے فیصلےھوتے ھیں؟


جواب: جی نہیں!

قران اور صحیح احادیث سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں

بلکہ الـلـہ تعالی نے انسان کی پیدائش سے پہلے ھی اسکی زندگی، موت وغیرہ لکھ دیا ھے.


القــــــران

اللہ کے حکم کے بغیر کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شده وقت لکھا ھوا ھے.

[سورة آل عمران] آیت 145


حدیث مبارکہ:

پیارے رسـول الـلـہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے زمین اور آسمان کی پیدائش سے 50 ھزار سال پہلے ھی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں.

[صحیح مسلم] حدیث: 6748



کیا شعبان کی 15 ھویں رات کو ھی نامہ اعمال خصوصی طور پر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ھوتے ھیں اور کیا 15شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ھے


جواب: جی نہیں!

ایسی کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ جس میں صرف 15 شعبان کو اعمال نامے پیش ھونے اور اس دن روزہ رکھنے کا ذکر ھو، بلکہ ھر سوموار اور جمعرات کو اعمال نامے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ھوتے ھیں اور اس لیے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھنا آپﷺ کی سنت ھے.


دلیل

پیارے رســول الـلہﷺ نے فرمایا:

"سوموار اور جمعرات کو اعمال (اللہ کی بارگاہ میں) پیش کیے جاتے ھیں، میں پسند کرتا ھوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے سے ھوں.

[جامع ترمذی] حدیث: 474


کیا اللہ تعالی 15 شعبان کی رات کو دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ھے؟


جواب: جی نہیں !

بلکہ اللہ تعالی الـلـہ ھر رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ھے۔


دلیل

پیارے رســول الــلــہ ﷺ نے فرمایا:

ھمارا رب بلند اور برکت والا ھر رات کے آخری حصے میں دنیا کے آسمان پر (اپنی صفات کے اعتبار سے) نزول فرماتا ھے اور پکارتا ھے کـون ھے جو مجھ سے دعـا کرے کہ میں اس کی دعـا قبول کروں،

کـون ھے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں،

کـون ھے جو مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اسے معاف کردوں۔"

[صحیح بخاری] حدیث: 1145



کیا 15 شعبان کی رات کو خصوصی طور پر قبرستان جانا چاھیے؟


 جواب جی نہیں!

15شعبان کی رات کو خاص اھتمام کے ساتھ قبرستان جانے کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث نہیں ھے۔

اور قبرستان جانے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ وھاں جا کر اھل قبرستان کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے کیوں کہ فوت شدہ لوگوں کے لیے دعا تو مسجد میں اور گھر پر بھی کی جا سکتی ھے، بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد مـوت کو یاد کرنا ھے.


ھمارے پیارے رســول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ موت یاد دلاتی ھے۔

[صحیح مسلم] حدیث: 976

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.